حضرت علی کے بیعت خلافت اور ان کے عہد خلافت میں پیش آنے والے واقعات

ابن سعد کی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ ہو تعالیٰ عنہ کی شادی کے اگلے دن مدینہ منورہ میں حضرت علی کی خلافت کی بیعت لی گئی اور وہاں جتنے بھی صحابہ کرام موجود تھے سب نے حضرت علی کی بیعت کی تھی یہ بات بیان کی جاتی کے لحاظ سے زبیر نے خودکشی نہیں کی تھی بلکہ مجبور ہو کر ان کی بیعت کی تھی بعد یہ دونوں نے مکہ شریف میں چلے گئے

اور وہاں سیدہ عائشہ کو ساتھ لے کر چلیں اللہ تعالی عنہا کو وہاں ہاں یہاں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ساتھ لے کر وہاں سے بصرہ چلے گئے حضرت علی کو اس بارے میں اطلاع ملی تو آپ نے رات کی طرف روانہ ہوئے اس وقت پر بصرہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے حامی تھے

ان سب کے حامیوں اور حضرت مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حامیوں کے درمیان لڑائی ہوئی اس لڑائی کو جنگ جمل کہا جاتا ہے یہ جنگ 36 میں جمادی الاخر کے مہینے میں ہوئی اس جنگ میں حضرت طلحہ اور زبیر شہید ہوگئے ان دونوں کے علاوہ مقتولین کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے 13 ہزار کے لگ بھگ بیان کی جاتی ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ کے بعد بصرہ میں پندرہ دن قیام کیا

اور پھر کوفہ تشریف لے آئے اس کے بعد حضرت معاویہ بن ابو سفیان اور ان کے ساتھیوں نے جن کا تعلق شام سے تھا انہوں نے حضرت علی کی خلافت کی بغاوت کردی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں اطلاع ملی تو تعالی نے بھی ان کی طرف پیش قدمی کی اور سفر کے مہینے میں ان دونوں کا آمنا سامنا ہوا

اور کئی دنوں تک لڑائی ہوتی رہیں بالآخر عمر بن عاص کی خفیہ تدبیر کی وجہ سے اہل شام نے نیزے پر قرآن بلند کر لیے اور اس کے بعد پیغام کی دعوت حق دعوت دینے لگے اس صورتحال میں لوگوں نے جنگ سے ہاتھ روک لیا اور دونوں طرف صلح کی بات ہونے لگی دونوں طرف سے مصنف مقرر کیے گئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے حضرت موسی ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ کو ثالث مقرر کیا

جب کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کو ثالث مقرر کیا ان دونوں حضرات نے ایک معاہدہ طے کیا کہ سال کے شروع میں دونوں عذر کے مقام پر کھڑے ہوکر امت کے معاملے میں غوروفکر کریں گے یوں لوگ وہاں سے منتشر ہوگئے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے شام واپس چلے گئے اور حضرت علی کوفہ کی طرف واپس لوٹ آئے

کوفہ واپس آنے کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھیوں نے ان کے خلاف بغاوت کر دی اور ان کا یہ کہنا تھا کہ سال صرف اللہ تعالی ہو سکتا ہے انہوں نے باقاعدہ فوج بن عدی حضرت علی نے ان لوگوں کے مقابلے میں دوسرے نے عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا اللہ نے ان لوگوں سے باقاعدہ جنگ کی اور ان کے ساتھ بحث و تمحیص کی ان میں سے کچھ لوگوں نے رجوع کر لیا اور کچھ لوگ اپنے موقف پر ڈٹے رہے لوگ بھاگ کر نہروان چلے گئے اور لوگوں نے وہاں ڈاکہ ڈالنے شروع کر دیے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ان کے ساتھ لڑنے کے لیے نہروان گئے

وہ اظہر علی نے ان کے ساتھ لڑائی کی اور انہیں قتل کیا اسی جگہ پر داستان دیاں نامی شخص بھی مارا گیا یہ واقعہ 38 ہجری پیش آیا اسی سال شعبان کے مہینے میں لوگ اظہر کے مقام پر کٹے ہوئے وہاں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین بھی موجود تھے

حضرت عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ ہو تعالیٰ عنہ کو ایک چال کے آگے کیا تو انہوں نے تقریر کرتے ہوئے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو معزول کرنے کا اعلان کر دیا اس کے بعد حضرت عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ نے تقریر کی تو انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ کے طور پر برقرار رکھا اور ان کی بیعت کر لی اس بات پر لوگ بھی ان سے الگ ہو گئے اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ساتھیوں کی مخالفت پر افسوس کا اظہار کرتے رہیں تاکہ وہ اپنی انگلیاں چبا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے افسوس اس بات کا کہ اپنے ساتھیوں کی طرف سے میری نافرمانی کی جاتی ہے

اور ان کے ساتھیوں کی طرف حضرت امیر معاویہ کی تحت کی جاتی ہے خارجیوں سے تعلق رکھنے والے تین افراد جن کے نام من ہم ملک بن عبداللہ تمیمی اور عمر بن بکیر التمیمی تھے یہ تینوں مکہ مکرمہ میں کٹے ہوئے اور آپس میں یہ طے کیا کہ وہ ان کی رات کو ضرور شہید کریں گے یعنی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ لوگ ضرور کریں گے انہوں نے یہ عہد کیا اور لوگوں کو اس سے نجات دلائیں گے

انجمن میں عہد کیا کہ وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید کرے گا آپ نے کہا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عمر بن عامر بن بکیر نے کہا کہ میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کروں گا انھوں نے آپس میں طے کیا کہ یہ کام رمضان کیا تیری صورت نہیں کیا جائے گا پھر ان میں سے ہر ایک شخص نے اپنے بیٹے کا فرق نہ شہر کی طرف روانہ ہو گیا چناچہ انہوں نے ابن ملجم کو خواہ وہ اسے اس کی ملاقات خارجی مکتبہ فکر سے ہوئی اور لوگوں سے ستر ہزار مبارک جمعہ کی رات میں چالیس دن میں اپنے ارادے کو تکمیل تکمیل تک پہنچایا

اس نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کر لیا لیکن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو شہید نہ کرسکے معاویہ رضی اللہ ہو تعالئ عنہ کو جب پتہ چلا کہ حضرت علی کو شہید کرنے گیا ہے تو انہوں نے اپنے بندے کو وہاں سے بھیجے کہ علی کو بچانے کے لیے لیکن جب تک وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس پہنچتے ہیں تب تک وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر چکے تھے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ شہید ہو گئے

اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے پوری حدیث ایسے ہے کہ حضور نے فرمایا جس کی تشریح کی جاتی ہے عادت یا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں علم کا شہر ہوں ابوبکر اس کی بنیاد یہی عمر اس کی دیواریں ہیں عثمان اس کا چھت ہے اور علی اس کا دروازہ ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی تمام اصحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کی سیرت و کردار کو ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالی اسی طرح ہم سب کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *