حضرات ذی وقار اللہ تبارک و تعالی کے جتنے بھی پیغمبر آئے وہ تمام ہی بڑی شان والے ہیں. اور ان میں سے کچھ پر اوالعزم ہیں جن میں ایک چمکتا ہونا حضرت خلیل کا بھی ہے. حضرت خلیل کی وہ ذات ہے کہ جس کے بارے میں میرے اور آپ کے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حضرت ابراہیم کی دعا ہوں. اور اس سے بھی بڑھ کر کہ قرآن مجید پینتیس مقامات پر حضرت خلیل کا ذکر خیر فرمایا. اور وہ ذکر خلیل ایسے انداز میں بیان فرمایا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے کئی جگہ امتحان لیا گیا. انسان دنیا میں رہتا ہے. دنیا کا سازوسامان. اس کی اپنی ذات کے لیے ہوتا ہے. سب سے پہلی چیز ہے جان.
انسان اپنی جان کے لیے کچھ کرتا ہے پھر اسے مال بھی بڑا پیارا ہوتا ہے کیونکہ مال بھی دنیا میں ضرورت ہے مال بھی بڑا پیارا ہوتا ہے. اس کے بعد جو سب سے پیاری چیز ہوتی ہے وہ ہے اولاد. حضرت خلیل سے وقتا فوقتا ہر ہر چیز کی قربانی لی گئی.رب تعالی نے حضرت خلیل کو بہت زیادہ مال عطا فرمایا. مال کا لفظ جو پہلے بولا جاتا تھا وہ مال بکریاں تھی. گائے تھی اور اونٹ تھے ان پر مال کا اطلاق کیا جاتا تھا رب تعالی نے سب سے پہلے مال کا امتحان لیا فرشتوں نے کہا اے باری تعالی تو نے خلیل کو خلیل بنایا ہے انہوں نے دوست تمہارا بننا ہی تھا تو نے مال جو خلیل کو اتنا عطا
فرمایا ہے. کثیر تعداد بکریاں گائے اونٹ
تو فرشتوں سے کہا کہ اے فرشتوں اگر یہ بات ہے جاؤ میرے خلیل سے امتحان لے لو
فرشتے چلے فرشتہ ایک آیا حضرت خلیل وہاں موجود تھے.
فرشتہ
کہنے لگا
سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر حضرت خلیل نے سنا کہا کہ اے باری تعالی میرے
علاوہ
کون ہے جو تیری پاکی بیان کر رہا ہے?
کون ہے علاوہ
کوئی ایسا بندہ جو تیرا نام لے رہا ہے. کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ انسانی شکل میں تھا. جب فرشتے کے پاس حضرت خلیج پہنچے کہا کہ اے بندے تو میرے رب کا نام لے رہا تھا تو میرے رب کو پکار رہا تھا. ایک مرتبہ پھر میرے رب کا نام سنا. اس نے کہا کہ میں پہلے نام لیا تھا اپنی مرضی کے مطابق اب میں لوں گا تو مجھے کیا دو گے تیرے رب کا نام لوں? کہا کہ اے بندے تو میرے رب کا نام لے. میں ساری بکریاں
تجھے دیتا ہوں. وہ کہنے لگا سبحان اللہ والحمدللہ و لا الہ الا اللہ واللہ اکبر. ارے حضرت خلیل کی تڑپ بڑھ گئی. حضرت خلیل وجد نے آگئے. کہا کہ اے بندے تو ایک مرتبہ پھر رب کا نام سنا. پھر کہنے لگا سبحان اللہ والحمدللہ. و لا الہ الا اللہ واللہ اکبر حضرت خلیل کی کیفیت بدل گئی. آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے. کہا کہ پھر سنا رب کا نام.
فرشتہ بولا
گائے تو نے مجھے دے دی اب کیا دو گے? اب اونٹ تمہارے پاس رے گئے. کہا جا میں تجھے اونٹ بھی دیتا ہوں. ایک مرتبہ میرے رب کا نام پھر تو سنا. وہ پھر کہنے لگا واللہ اکبر کہا کہ میرے تجھے اونٹ بھی دیے لیکن حضرت خلیل کی جو تڑپ تھی جومحبت تھی جہ عشق الہی تھا وہ درجہ کمال پر تھا. کہا کہ ایک مرتبہ پھر سنا وہ فرشتہ کہنے لگا اے خلیل بکریاں تو نے مجھے دی. اے خلیل تو نے گائے مجھے دے دی. اے خلیل تیرے اونٹ تھے. وہ بھی تو نے مجھے دے دیے اب تیرے پاس بچا ہی کیا ہے? کہا حضرت خلیل کے جو جملے تھے غور سے سنیے گا. کہنے لگے کہ بکریاں تجھے دے دی ہیں. گائے تجھے دے گئے ہیں اونٹ تجھے دے دیے ہیں لیکن مال اتنا زیادہ ہے. ان کو سنبھالنے کے لیےکوئی بندہ بھی تو تجھے چاہیے ہوگا. ارے تو پوری زندگی میرے رب کا نام مجھے سناتے جانا. میرے رب کی تسبیح بیان کرتے جانا میں تیرے تیرے ساتھ
زندگی بسر کردوں گا
. اللہ اللہ وہ خلیل تھے اب خلیل کہتے کسے ہیں? صاحب مینار کہتے ہیں کہ خلیل کا لفظ اس محب پر بولا جاتا ہے جس کے دل میں اپنے محبوب کے سوا کسی کی گنجائش نہ ہو. بے شک.پیارےخلیل حضرت خلیل سے جب دوسرا امتحان لیا گیا کہ وہ دوسراامتحان
کیا تھا صرف اشارہ کروں گا. دوسرا امتحان جان کا تھا. قرآن مجید میں ہے کہ جب اگر کوئی شخص تلوار کی نوک رکھ کر تمہیں اپنے رب کا انکار کرنے کا بول دے تو وقتی طور پر زبان سے رب کا انکار کر سکتے ہیں.
حضرت خلیل کو جب حکم ہوا کہ جاؤ کلمہ حق بلند کرو. جاؤ کلمۃ الحق بلند کرو اور کس کے سامنے بلند کرناہے نمرود کے سامنے بلند کرنا ہے. اور نمرود دنیا کا وہ بادشاہ ہے دنیا میں
ایسےچار بادشاہی سے گزرے ہیں جنہوں نے ایک دو خطوں پر نہیں بلکہ پوری دنیا پر حکومت کی تھی. کہا کہ جاؤ نمرود کی دربار میں وہاں کلمت الحق
بلند
کرو. حضرت ابراہیم جب اس کے دربار میں پہنچے حضرت ابراہیم نے جب کلمۃ الحق بلند کیا تو پھر صلہ کیا ملا? پھر دوسرا امتحان اگر حضرت ابراہیم کا حضرت ابراہیم کو جھگڑ کر زنجیروں میں ڈال کر آگ میں لے جانے کے لیے تیار کیا گیا
جب یہ منظر
فرشتوں نے دیکھا رب تعالی نے فرمایا اے فرشتوں جب میں نے کہا تھا میں آدم کو تخلیق کرنے والا ہوں. تم نے کہا تھا انسان کو کیوں تخلیق کرتے ہو? وہ تو دنگا فساد کریں گے. کہا کہ دیکھو میرے خلیل کو جب رب تعالی نے منظر فرشتوں کو دکھایا تو کہا رب تعالی نے کہ آگ ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی ہو جا. فقط ٹھنڈی نہیں ہونا بلکہ سلامتی والے بھی ہونا ہے. اللہ تبارک وتعالی نے اسی
طرح
اولاد کا بھی امتحان لیا