اصغری نے اپنی کتاب الدلائل میں سلیمان بن عبداللہ سے روایت کئے گئے ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسجد میں آ کر کھا کے میں بیٹھ گئے حلقے میں حضرت عبداللہ بن عمر حضرت ابن عباس بن عبد الرحمن بن ابو بکر موجود تھے
لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوئے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے آپ کی طرف سے منہ پھیر لیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس منہ پھیرنے والے شخص اور اس کے چچا زاد یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مقابلے میں خلافت کا زیادہ حقدار میں ہوں
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا وہ کیسے کیا آپ نے ابتدا میں اسلام قبول کر لیا تھا یا پھر آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں تو انہیں جواب دیا جی نہیں لیکن میں اپنے مقتول چچازاد کی وجہ سے خلافت کا زیادہ حقدار ہو
جو عبداللہ بن عباس نے فرمایا ایسی صورت حال میں یہ وقت کے ساتھ زیادہ برہمن بھکر کے سب کے سب سے زیادہ حق دار ہے دن میں واوڈا نے کہا لیکن عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا میں تو یہ خود اللہ بن عمر خلافت کے ذمہ دار ہوں گے
عبداللہ بن عباس کا اشارہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی کی طرف تھا کہ ان کے والد کو ایک کافر نے قتل کیا تھا اس کا کالعدم ہو جاتی ہے کیونکہ آپ کے استاد عثمان رضی اللہ عنہ پر تو مسلمانوں نے حملہ کیا تھا ان مسلمانوں نے انہیں شہید کیا تھا
عبداللہ بن محمد بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ مدینہ منورہ تشریف لائے تو ان کی ملاقات حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی حضرت معاویہ نے اسے کہا ہے انصار کے گھروں میں جتنے بھی لوگ ملنے کے لیے آتے ہیں تم ان میں شامل نہیں ہوتے تو اسے خدا تعالی نے فرمایا ہمارے پاس سواری نہیں ہے
حضرت امیر معاویہ نے برا کیا تمہارے پانی لانے والے اوڈٹ کہاں ہیں تو پھر اصغر نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا تم لوگ میرے بعد ترجیحی سلوک دیکھوگے امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت کیا کہ تم لوگوں کو کیا حکم دیا تھا
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ انہوں نے کہا کہ نبی اکرم نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہمیں ایسی صورت حال میں صبر سے کام لیں تو پھر دماغ دل ہو نے فرمایا تم صبر اختیار کرو جب اس بات کی تلاوت حسان بن ثابت کے صاحبزادے عبدالرحمن تک پہنچ دونوں نے یہ اشعار کہے خبردار معاویہ رض کو ہماری طرف سے یہ پیغام پہنچا دو جو امیر ہے انہوں نے ہمارے بارے میں جو بات چیت کی ہے
اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک ہم لوگ صبر کرنے والے ہیں اور اسے جب آپس میں مقدمہ بازی ہوگی اور فیصلے ہوں گے ابن ابو حسین اور ابن عساکر نے ہی مجھے جبلہ بن سحیم کے حوالے سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ کے عہد حکومت میں ایک مرتبہ ان کے پاس گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک بچے نے ان کی گردن میں رسی ڈالی ہوئی ہے ا
نہیں کھینچ رہا ہے میں نے کہا معلوم نہیں آپ کیا کر رہا ہے تو نے فرمایا نفس کی پیروی کرنے والے تم چپ ہو جاؤ کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کسی شخص کا کوئی بچہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بچے کے لیے نہ بن جائے
ابن عساکر کی روایت نقل کی ہے کہ امام ابو ابن شعبہ رضی اللہ انہوں نے اپنی کتاب میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا اے میرے بھتیجے میں تمہیں بادشاہ کے غصے سے بچنے کی ہدایت کر رہا ہوں کیونکہ بادشاہ کا غصہ بچے کے حصے کی طرح ہوتا ہے
لیکن فشار کی پکڑ کی طرح ہوتی ہے انشاءاللہ یہ روایت نقل کی ہے کہ زیاد بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو عامل مقرر کیا اس کے پاس بہت سا مال اکٹھا ہو گیا اسی انج ہوئے ہیں حساب کتاب میں غلطی کی وجہ سے اذان ہو رہی ہے تو وہ بھاگ گیا کہ ان کے پاس پہنچ گیا
میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو خط لکھا کے اس دن میرے ساتھ زیادتی کی ہے تو انہوں نے مجھے جواب بھی خط میں لکھا کہ میرے لیے اور تمہارے لئے یہ مناسب نہیں ہے کے ہم تمام لوگوں کو ایک ہی طریقے کے ساتھ ان کے ہمارے لیے یہ مناسب نہیں ہے
کہ ہم اتنا نرم رویہ اختیار کر لی کہ لوگ ہماری نفرت معنی کرنے کے حوالے سے کلیئر ہو جائے اور یہ مناسب نہیں کہ ہم اتنی سختی اور شدت سے کام لے کے اسی طرح جب کوئی حکمران مقرر ہو تو نہ سختی سے کام لینا چاہیے اور نہ ہی زیادہ نرمی سے کام لینا چاہیے
اسی طرح ہمیشہ بھی بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس دن بھائیو کچھ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس میں امت جس بھی امت میں اختلاف رونما ہوئے تو اہل باطن اہل حق پر غلبہ حاصل کیا اور اس کا جو ہے نا معاملہ وہ بہت ہی زیادہ مختلف ہے سلمان غنی یہ بات نقل کرتے ہیں
کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں کو اپنے ہاں اندر آنے کی اجازت دیں تو میں بھر گئی تو انہوں نے ارشاد فرمایا تم کسی عرب شاعر کے تین اشعار مجھے سنائیں جس میں کوئی مستقل نہ ہو تو خاموش ہے جو روز بدلا نبی تشریف لائے اور حضور کے اہل عرب کا سب سے قادرالکلام شخص آگیا ہے عبداللہ بن زبیر کی کنیت ابو ہے انہوں نے یہ دریافت کیا
کہ کیا معاملہ ہے تو نے فرمایا مجھے حرب میں سے کسی شخص کے تین اشعار سنے ہیں جن میں ہر ایک شخص کا مستقل نہ ہو حضرت عبداللہ بن زبیر نے تین لاکھ کے وسوسے آنے کا وعدہ کر لیا تو امیر معاویہ نے کہا ٹھیک ہے اگر انہوں نے کہا آپ کو اختیار ہے آپ کریں گے اور کفایت کر جائیں گے میں نے کہا تم نے یہ افواہ اودی کا شہر پڑا کے میں نے تم لوگوں کو وقت دفتر بنایا ہے
لیکن دھوکہ دینے والے شخص اور دشمنی رکھنے والے شخص سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا افغانستان منوانے کا بلکل ٹھیک تو عبداللہ بن زبیر نے دوسرا شعر سنایا میں نے لوگوں کے درمیان باہمی دشمنی سے بڑھ کر واقع ہونے والے حسن والی کوئی چیز نہیں دیکھی آپ نے پھر کہا کہ بالکل ٹھیک ہے تو اللہ کو زبان قریشی سمجھایا میں نے کی کڑوی چیزیں دیکھی ہوئی ہے
لیکن کسی سے مانگنے سے زیادہ کڑوی چیز کا ذائقہ کبھی نہیں دیکھا تو اس پر حضرت امیر معاویہ کے قابل گھومنے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو تین لاکھ دینے کا حکم جاری کردیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ محمد کے ماموں ہیں